شہر کے معروف ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں نفسیاتی علاج کے لیے مختص کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور دو خواتین اندر داخل ہوتی ہیں۔ میں ذرا چونک سا جاتا ہوں کہ ان میں سے پندرہ سال سے کم تو کوئی نہیں لگتی پھر یہاں کیوں آگئ ھیں۔ سوچا کہ شاید اگلی دفعہ بچہ ساتھ لانا ہوگا اور آج معلومات کے لئے آئی ہوں گی۔ دونوں میں سے قد میں لمبی اور وزن میں کافی کم خاتون نے شہر کے مشہور پرائیویٹ سکائٹرسٹ کی فائل میز پر رکھی اور رونا شروع کر دیا۔ میں نے ٹشو پیپر دیا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ دوسری خاتون جو قد میں قدرے کم مگر وزن میں کافی زیادہ تھی غور سے دیکھنے پر کم عمر ہی لگی اور اپنے آپ میں گم محسوس ہوئی۔ خاتون نے آنسو پونچھنے کے بعد بتایا کہ ان کے ساتھ اس وقت ان کی بارہ سالہ بیٹی ہے جس کو دورے پڑتے ہیں اور دوائی استعمال کرکے اس کا وزن بے تحاشہ بڑھ گیا ہے۔ چہرے پر بال بھی اگ آئے ہیں اور وہ اپنی عمر سے کئی گناہ زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
بارہ سالہ لڑکی یا خاتون جو اپنی تیس سالہ ماں سے کسی طورعمر میں کم نہ لگتی تھی، مرگی کی دوائی اور اینٹی سائیکوٹک اپنی عمر سے کئی زیادہ ڈوز میں 6ماہ سے لے رہی تھی۔ چلتے چلتے گر جانا اور جسم کو کئی منٹ تک جھٹکے لگنا، اس کیفیت میں وہ بچی تقریبًا دو ماہ سے مبتلا تھی۔ شروعات دم سے ہوئی جو محلے کی مسجد کے مولوی نے کیا پھر کسی بابا جی سے تعویذ لئے گئے اور اس کے بعد باری آئی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی۔ ڈاکٹر نے بھی زیادہ بات چیت کرنا مناسب نہ سمجھا اور دماغ کی لہروں کی جانچ سمیت ہزاروں روپے کے کی ٹیسٹ کرا کر دوائی شروع کر دی۔ خاطر خواہ فائدہ نہ ہونے اور دوروں کی کیفیت بڑھنے پر دوائی کی مقدار بڑھتی گئی، بچی کا وزن بھی بڑھتا گیا اور چہرے پر بال اگتے گئے۔ دورے کم نہ ہوئے اور کسی عزیز کے مشورے پر عمل کر کے آج وہ میرے دفتر میں موجود تھے۔
دوےر عمومًا دو طرح کے ہوتے ہیں، دماغی اور نفسیاتی۔دونوں کا علاج یکسر مختلف ہوتا ہے۔ دماغی دورے دوائی سے ٹھیک ہوتے ہیں اور عرف عام میں انہیں مرگی کے دورے کہا جاتا ہے۔ نفسیاتی دوروں کی وجہ عموما لاشعور کی کوئی گتھی یا شعوری پریشانی کا صحیح راستے سے اظہار نہ ہنا ہوتی ہے۔ عمومًا ساتھ ڈپریشن یا انزائٹی کی علامات بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی عوام خاص کر خواتین میں یہ بیماری عام ہے اور علاج میں دوائیوں کا رول کم اور نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے اکژر معالجین پاس وقت کم ہی ہوتا ہے۔
پہلی ملاقات میں یہ یقین کیا کہ دورے نفسیاتی ہیں اور دوائی کم کرنا شروع کی۔ کچھ ڈپریشن اور بے چینی پر کام کیا اور کوشش کی کہ ڈاکٹر-مریض کا رشتہ استوار کیا جائے تاکہ شعوری اور لا شعوری طور پر وہ آسانی سے مجھے اپنے ذہن کی گتھیوں اور گرہوں تک رسائی دے سکے۔ دوسری ملاقات میں کچھ چیزیں واضح ہوئیں اور پھپھی کے لڑکے کے گرد کہانی بنتی نظر آئی۔ بچی کی والدہ مصر تھی کہ صرف ادویات بدل کر موٹاپے پر قابو پایا جائے اور نئی دواوں سے دورے روکے جائیں۔ بصد اصرار ہی کچھ بات چیت کی اجازت دی جاتی تھی۔
تیسری ملاقات میں یہ عقدہ کھلا کہ معاملہ پسندیدگی یا لگاوٹ کا نہیں بلکہ شدید نوعیت کا ہے اور 16 سالہ لڑکا جنسی ہراسگی کے عمل میں مصروف ہے اور مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ بچی کے آنسوئوں نے اس ملاقات میں بات آگے نہ بڑھنے دی۔ چار ہفتوں میں دوروں کی شدت اور تعداد کم ہو گئی تھی مگر بچی گم سم سی ہنے لگی۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر چھ میں سے ایک بچی کسی نہ کسی طور سیکشوئل ابیوز کا شکار ہوتی ہے۔ غلط العام تاثر یہ ہے کہ مکمل طور پر جنسی عمل کا ہونا ہی sexual abuse ہے مگرنا بالغ سے کسی اور کے جنسی اعضاء کو مس کرنا، جنسی کھیل کھیلنا، مختلف اشیاء کے استعمال سے جنسی تلذذ لینا، یہ سب sexual abuse کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں کو پورنوگرافی دکھانا، جنسی اعضاء کو دکھانا ، جنسی عمل دکھانا اور برہنہ کرکے تصاویر لینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارے اردگرد کتنے بچے اور بچیاں اس کا شکار ہوں گے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر abuser خاندان سے ہی ہوتے ہیں، رشتے دار ہوتے ہیں اور اسی گھر میں رہتے ہی ۔ عالیہ بھٹ کی فلم ہائی وے بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔
جنسی ہراسگی کا شکار بچے، بچپن اور جوانی میں کئ نفسی جنسی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے حوالے سے ہائی رسک ہوتے ہیں۔ ڈپریشن، انزائٹی، نفسیاتی دورے یا ,dissociation نشہ آور اشیاء کا استعمال، شخصیت کے عارضے، sexual dysfunction اور sexually transmitted diseases وغیرہ ان بچوں میں عام طور پر دیکھے گئے ہیں۔ جو بچے مسلسل اس عمل کا شکار رہتے ہیں ان کے اندر دماغی اور کیمیائی تبدیلیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ نفسیاتی گتھیاں ان سب کے سوا ہیں۔ قریبی عزیز کے ذہن میں اس عمل کا خیال آنے سے لے کر متاثرہ انسان کی زندگی کے آخری سانس تک اس گتھی کا کوئی سرا ہاتھ آتا ہے اور کوئی نہیں۔ بحیثیت سکائٹرسٹ ایسے مریضوں سے مل کر مجھے اکثر مجید امجد کی ایک نظم کا ٹکڑا یاد آتا ہے
کون اس گتھی کو سلجھائے دنیا ایک پہیلی
دو دن ایک پھٹی چادر میں دکھ کی آندھی جھیلی
دکھ کی دو سانسیں لیں دو چلموں کی راکھ انڈیلی
اور پھر اس کے بعد نہ پوچھو جو کھیل ہونی کھیلی
ذہن کی غلام گردشوں میں بھٹکتی تلخ یاد اور ہر ہفتے، 15 دن بعد نیا زخم۔ تیسری دفعہ کے بعد اس بچی نے اپنی والدہ کو جب یہ بات بتائی تو اس خاتون نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا اور اس کے ذہن کا فتور قرار دیا۔ چوتھی دفعہ جب یہی ہوا اور والدہ کو بتایا تو والدہ نے پھر جھاڑ پلائی اور سمجھایا کہ پھپھی کے اس لڑکے سے اس بچی کا رشتہ ہونا ہے لہذا اس بات کو دبا دیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی راضی نہ ہوئی کہ بچی پھوپھی کے گھر آنا جانا کم یا ترک کردے۔ ملک میں قوانین کے عدم نفاذ کی بنا پر بچی کی حفاظت کے لیے لئے صرف وہ بچی یا اس کے والدین ہی کوئی انتظام کرسکتے تھے۔ میں نے ان سے فیملی میٹنگ کی درخواست کی اور والد کو بلانے کا کہا۔ وہ خاتون ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں یہ سمجھ چکی تھی کہ میں معاملے کی جڑ تک پہنچ گیا ہوں۔ معاملہ چونکہ انتہائی حساس نوعیت کا تھا اور بچی نا بالغ تھی لہذا والدین کی مدد کے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانا نا ممکن تھا۔ “بہت سے بچوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ جنسی تشدد یا حراسگی کا شکار ہوتے ہیں مثلًا کسی نازک حصے کو ہاتھ لگایا جانا یا جنسی گفتگو سے ہراساں کیا جانا۔ آپ کی بچی بھی کچھ عرصے سے قریبی عزیز کے ہاتھوں اسی قسم کی حراسگی کا شکار ہے اور میری معلومات کے مطابق آپ اس سے آگاہ بھی ہیں”۔ ں یہ سننا تھا کہ والدہ کے آنسو چھلک پڑے۔ تشو پیپر دینے پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ “ڈاکٹر صاحب میں بے بس ہوں ہو ایسی بات پر بیٹی کی طرف داری کروں تو بری بنوں اور طرفداری نہ کروں تو بھی بری بنوں۔” بات طرفداری کی نہیں سیفٹی کی ہے اور معاملہ نہایت گمبھیر ہے۔ سمجھانے بجھانے پر والد کو لانے اعر فیملی میٹنگ پر رضامند ہو گئیں۔ والد کو صرف یہ کہہ کر لائیں کہ دوروں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
جس طرح والدہ کو معاملہ سمجھایا تھا والد کے گوش گزار بھی کیا تو پہلے تو وہ بھڑک اٹھے اور غصے میں اپنی بیوی کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ کچھ وقت کے بعد انہیں بھی معاملے کی سنگینی اور حساس نوعیت کا احساس ہوا تو معاملے کے حل کی طرف بات بڑھی۔ عارضی طور پر بچی کے اکیلے رہنے اور پھوپھی کے گھر آنے جانے پر پابندی لگائی گئی اور اس کے بعد ان کے دفتر میں دوسرے شہر میں تبادلے کے معاملے پر بات ہوئی۔ بچی کی سیفٹی جو کہ پہلی ترجیح تھی اور والد کے ان اقدام سے یقینی ہو رہی تھی لہذا اس ملاقات کا اختتام توقع سے بڑھ کر ہوا۔ مرگی کی دوائی مکمل بند کرنے اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کرنے پر باہمی اتفاق بھی اس نشست کے اہم فیصلوں میں سے ایک تھا۔ چونکہ ان کا ارادہ دوسرے شہر منتقل ہونے کا تھا لہذا قریبی Psychiatrist سے رجوع اور abuse کے اثرات سے نمٹنے اور مستقبل میں بچی کی مدد کا plan دے کر فائل فی لوقت بند کی۔
اس کیس نے کئی سوالات اٹھائے جن کا جواب چار سال گزرنے کے بعد بھی مبہم ہے۔ کیا بچے قریبی رشتوں کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں؟ کیا مائیں بھی رشتوں کے تانوں بانوں میں پھنس کر اولاد کو بھیانک ترین بھنور سے نہیں نکال سکتی بلکہ اور دہنسا دیتی ہیں؟ کیا معالج جن کے پاس مریض سے بات کرنے کا بھی وقت نہیں وہ no harm کا بنیادی اصول پامال نہیں کر رہے؟ اگر آپ یا آپ کہ ارد گرد کوئی بھی اس قسم کی زیادتی کا شکار ہو کر نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہے تو اسے مدد کیلئے کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس ضرور بھیجیں۔
Gingivitis is an oral health issue that affects lots of people around the world. While…
If you wish to lose weight naturally, homeopathy may indeed be something worth looking into.…
Dental caries or cavities are one of the most common childhood health issues. Acid produced…
Does your stomach hurt when you wake up in the morning? It can be pretty…
The color of your teeth can significantly impact your appearance and confidence. While everyone wants…
Sensitive teeth can be very painful. You may experience pain and discomfort after eating hot,…