اولاد قدرت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور جڑواں اولاد تو خصوصی طور پر منفرد قسم کے تجربے اور خوشی کی وجہ بنتی ہے، زیادہ تر شادی شدہ جوڑے جُڑواں بچوں کی پیدائش کے خواہش مند ہوتے ہیں، تاہم جڑواں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے لوگوں کے درمیان بہت زيادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اور لوگوں کے ذہن میں کچھ اس طرح کے سوالات اُٹھتے ہیں کہ کسی بھی ماں باپ کے گھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش کیوں ہوتی ہے؟ اور جڑواں ہونے کے کتنےامکانات ہیں؟ جُڑواں بچوں کی پیدائش کے بارے میں جدید سائنس نے تحقیقات کے بعد کچھ باتیں بتائی ہیں جن کے بارے میں جاننا ہر شادی شدہ جوڑے کے لیے ضروری ہے- تو آج ہم آپ کو چند ایسی اہم وجوہات بتائیں گے جس کی وجہ سے جُڑواں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
جُرواں بچے پیدا ہونے کی وجوہات
باڈی ماس انڈیکس کا زیادہ ہونا حال ہی میں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن خواتین کا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) 30 یا اس سے زائد ہو تو ان کے گھر جڑواں بچے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ فیملی ہسٹری اگر ماں باپ میں سے کسی کی فیملی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہو تو اگلی نسل میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے، تاہم ممکن ہے کہ اگر ماں کے خاندان میں جڑواں بچوں کی ہسٹری ہو تو امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
جڑواں بچوں کے بارے میں کچھ حقائق
- عمر رسیدگی سائنس کہتی ہے کہ اگر ماں کی عمر تیس سال سے زيادہ ہو تو اس کے حمل ٹہرنے کی صورت میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تیس سال سے زیادہ عمر کی عورت میں ایک سے زیادہ انڈے خارج ہوتے ہیں۔
- قد اور وزن عام طور پر لمبے قد اور صحت مند جسامت والی عورت کے جڑواں بچوں کے پیدا کرنے کے امکانات چھوٹے قد اور کمزور جسامت والی عورت کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، یعنی وہ عورتیں جن کا وزن اور قد کم ہو ان میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے زیادہ امکان ہوتے ہیں، یہ وجہ تھوڑی عجیب ہے تاہم اس وجہ کے بارے میں سائنسی ماہرین حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ افریقی افراد امریکیوں میں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے جبکہ ایشیائی خواتین میں یہ شرح سب سے کم ہے۔
- ہیومن ری پروڈکشن جریدے میں شائع ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کی وجہ 30 سال سے زیادہ کی عمر میں بچے پیدا کرنا ہے۔ ایشیا میں اس تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا جبکہ شمالی امریکہ میں یہ تعداد 71 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
- جڑواں بچوں سے متعلق محققین نے 165 ممالک سے سنہ 2010 سے 2015 تک جو ڈیٹا جمع کیا ہے اور پھر اس کا سن 1980 سے 1985 تک کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا ہے۔
- ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں اب یورپ اور شمالی امریکہ میں جڑواں بچے پیدا ہونے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ اور دنیا میں ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں یہ تعداد نو سے بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔
- افریقہ میں گذشتہ 30 سال سے جڑواں بچوں کی شرح زیادہ ہے اور اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
- دنیا میں اس وقت ہر سال 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہر 42 بچوں میں ایک بچہ جڑواں پیدا ہوتا ہے۔ تاخیر سے بچے پیدا کرنے کا رجحان اور آئی وی ایف جیسی طبی تکنیکوں کے باعث جڑواں بچوں کی شرح میں سن 1980 کی دہائی سے اب تک ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ مگر اب یہ تعداد کم ہو سکتی ہے کیونکہ اب دوران حمل ایک بچے کی طرف توجہ چلی گئی ہے جو کہ کم خطرناک ہے۔
- جیسے کہ آئی وی ایف، آئی سی ایس آئی، مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانے جیسے طریقے اس اضافے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہےاس طرح کی تکنیک ایک ہی بار متعدد بچوں کی پیدائش کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔
- تحقیقی جائزے کے مطابق خواتین کا بعد میں خاندانی زندگی شروع کرنا، حمل روکنے کے لیے مصنوعی طریقوں کا استعمال کرنا اور مجموعی طور پر فرٹیلٹی کی شرح کو کم کرنے نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔
- پروفیسر کرسٹیان مونڈن کے مطابق اب تمام تر زور ایک حمل پر چلا گیا ہے، جو کہ بہت محفوظ طریقہ ہے۔ جڑواں اور متعدد بچوں میں یہ خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ”پری میچور” یعنی قبل از وقت پیدا ہو سکتے ہیں اور اسی لیے ان کا وزن بھی ایک کلو یا اس سے کم ہوتا ہے۔
- ایک نارمل بچے کا وزن پیدائش کے وقت 2.5 کلوگرام ہونا چاہیے۔ جب کہ ان بچوں کا وزن ایک کلو کے لگ بھگ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے فوری بعد وہ مختلف مسائل کا شکار ہوئے اور باوجود کوشش کےجانبر نہ ہو سکے۔
- ڈاکٹر روبینہ نے مریضہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ ضلع ایبٹ آباد سے تقریباً 73 میل دور ایک گاؤں چھتر پلین سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم رہے ہیں۔ ڈاکٹر روبینہ کا کہنا تھا کہ32 سالہ اس خاتون کے دو بچے اس سے قبل بھی آپریشن سے ہوئے تھے، اور اب بیٹے کی خواہش میں وہ دوبارہ حاملہ ہونا چاہ رہی تھیں۔ اس خاطر انہوں نے حمل ٹھہرانے والی ایک گولی لی، تاکہ وہ جلد از جلد حاملہ ہوں سکیں۔
- گائناکالوجسٹ روبینہ بشیر کا کہنا ہے کہ متذکرہ خاتون کے ہاں متعدد بچوں کے جنم لینے کی وجہ وہ گولی اور انجیکشنز دکھائی دیتے ہیں جس کا استعمال خواتین فرٹیلیٹی یعنی افزائش نسل کے لیے کرتی ہیں۔
- افزائش نسل کی یہ ادویات اکثر دو یا دو سے زائد حمل ٹھہرانے کا موجب بنتی ہیں کیونکہ ان کو کھانے سے عورت کی بیضه دانیوں میں زیادہ انڈے جنم لیتے ہیں۔
- انہوں نے کہا کہ بیضہ دانیوں میں زیادہ انڈے جنم لینے سے زیادہ انڈے خارج ہونے اور حمل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ تاہم دو یا دو سے زائد حمل ٹھہرنے سے عورت کی صحت اور جان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن کومکمل اور مستقل طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔
- اگرچہ جناح ہسپتال میں سات بچے پیدا کرنے والی خاتون کو بظاہر کوئی بڑی بیماری لاحق نہیں ہوئی اور ان کی جان بھی بچ گئی لیکن متعلقہ گائنی وارڈ کے مطابق حاملہ خاتون ان سے مستقل چیک اپ نہیں کرواتی تھیں۔ لہذاجب آخری مرحلے میں وہ ان کے پاس پہنچیں تو ان کا بلڈپریشر خطرناک حدوں کو چھورہا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد حمل ٹھہرنے سے ماں کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کو بھی کئی پیچیدگیوں اور خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
- طبی تحقیق پر مبنی ویب سائٹ ری پروڈکٹیو فیکٹس کے مطابق دنیا بھر میں متعدد پیدائشیں ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جس کی مختلف سماجی، جسمانی اور سائنسی وجوہات ہیں۔
- ویب سائٹ کے مطابق قدرتی طور پر ہر 250 میں سے ایک کیس جڑواں بچوں کا آتا ہے۔ جب کہ ہر 10 ہزار میں سے ایک ٹریپلیٹ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر سات لاکھ میں ایک ’’کواڈروپلیٹ”(چار بچے) کا کیس ہوتا ہے۔ تاہم آج کل متعدد پیدائشوں کی ایک بڑی وجہ فرٹیلیٹی کی ادویات ہیں۔
- ڈاکٹر روبینہ بشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی دو سے زائد بچوں کی پیدائش کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ بھی خاص ادویات کا استعمال ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ شادی شدہ جوڑوں کی ادویات کی دکانوں میں دستیاب فرٹیلیٹی کی ادویات ڈاکٹر کے مشورے پر لینے چاہئیں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ شادی شدہ جوڑوں کی ادویات کی دکانوں میں دستیاب فرٹیلیٹی کی ادویات ڈاکٹر کے مشورے پر لینے چاہئیں۔
Disclaimer: The contents of this article are intended to raise awareness about common health issues and should not be viewed as sound medical advice for your specific condition. You should always consult with a licensed medical practitioner prior to following any suggestions outlined in this article or adopting any treatment protocol based on the contents of this article.