اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ کے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے۔ ایک جوان خاتون بستر پر دوزانو بیٹھی ہے۔ایک ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہے جس کا ایک سرا bed کے ساتھ بندھا ہے اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ادھ جلا سگریٹ دبا ہے جس کا دھواں ماھول کو بوجھل کیے دے رھا ھے۔ دو مردانہ پولیس والے بھی بیک وقت چائے اور سگریٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور دونوں فریقین کے مابین ہنسی مذاق سے بھرپور گفتگو چل رہی ہے۔ کمرے میں آنے کا مقصد اور اندر کا ماحول دونوں ہی میرے جیسے ابتدائی ایام کے نفسیات دان کے لئے عجیب وغریب تجربہ تھے۔میرے آنے کا مقصد اس خاتون کی ذہنی صحت کی جانچ تھا جو اپنے دو سگے .بچوں کو ذبح کرنے کے بعد عدالت سے معاینہ کے لئے بھیجی گئی تھی۔
بہت سے انسانی رویے اور حرکات قانون دانوں کو بھی دنگ کردیتے ہیں اور جب وہ محرکات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تو بات آتی ہے ذہن کے نہاں گوشوں کی اور ملزم مبینہ طور پر مریض بن کر ہمارے روبرو ہوتا ہے۔ ذہنی و نفسیاتی معالج کے طور پر ہمارا کام یہ جانچنا ہوتا ہے کہ متعلقہ عمل کے وقت مریض کے ذہن کی حالت کیا تھی اور وہ کسیmajor mental illness کا شکار تو نہیں جس کی کڑیاں اس عمل سے بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑی ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ مریض کے حالیہ مرض کی علامات اور ذہنی حالت سے آپ ہرگز دو ہفتے پہلے سرزد ہوئے عمل کے وقت کی ذہنی حالت درست طور پر نہیں جان سکتے۔ سالوں کی ریاضت بھی بہت سے موقعوں پر مسئلوں کی پیچیدگی کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہے۔
مبینہ ملزم کو مریض سمجھ کر معالج کی طرح بار بار ذہن کی جانچ ھی ان مسائل کی پیچیدگی کو کم کرتا ہے۔ ہے non judgmental ہو کر empathy کے ساتھ ھی اس گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ معالج اور پولیس والے کی جانچ میں فرق لازمی ہے۔ پہلی مرتبہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے یہی سوچ تھی کہ خاتون Psychotic ہوں گی اور حقیقت سے رابطہ منقطع ہوگا اور اسی کیفیت میں ان سے یہ عمل سرزد ہوا ہوگا۔ ذہنی جانچ کے متعدد بار کیے جانے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ خاتون کے شوہر سے ان کی ناچاقی تھی اور مبینہ طور پر شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لے رہا تھا۔ اس روز بھی شوہر سے لڑائی کے بعد خاتون کے دماغ میں میں مسلسل یہ خیال گردش کر رہا تھا کہ زندگی میں ان کے اور ان کے بچوں کیلئے کچھ نہیں بچا۔ اولاد کا دکھ، بچوں کا نقصان۔ شخصیت کا جذباتی پن اور سوچے سمجھے بغیر کام کر گزرنے کی عادت نے یہاں بھی کام کیا اور سوچ کے آتے ھی باورچی خانے سے چھری اٹھائی اور چار سالہ بچے کی گردن پر پھیر دی۔ اس معصوم کی چیخیں اور خون بھی بدلے کی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکا اور اگلی باری سات سال کے فرزند کی تھی۔
خاتون کو کافی عرصہ سے ڈپریشن کا عارضہ لاحق تھا۔ کئی ہسپتالوں سے علاج کرایا جاچکا تھا۔ پانچ سال پہلے برقی علاج یعنی ECT بھی ھوئی – اس سے پہلے تین دفعہ اپنی جان اور ایک مرتبہ اپنی والدہ کی جان لینے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ماہ پہلے چھت سے کود گئیں اور کمر کی ہڈی کا آپریشن ہوا۔ معمولی بحث، تکرار میں بدل گئی اور والدہ کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کو مارنے کی کوشش کی جو بھائیوں نے موقع پر پہنچ کر ناکام بنا دی۔
وارڈ میں داخلے کے دوران بیماری اور شخصیت کی جانچ کا عمل متعدد بار دہرایا گیاا اور ایک سے زائد معالجوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ وارڈ میں کھانا پینا، سونا، سگریٹ پینا اور گھر والوں سے ملنا سب معمول کے مطابق تھا۔ اپنے عمل پر کوئی افسوس یا ندامت نہیں تھی۔ بطور معالج ہمارے لئے اہم یہ تھا کہ اس تمام وقت میں سائیکوسس کا نشان کہیں نہ ملا۔ خاتون حقیقت کی دنیا میں تھیں اور تمام حقائق اور ان کے محرکات سے بخوبی آگاہ تھیں۔ شخصیت کی جانچ پر جذباتی پن اورImpulsivity نمایاں تھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے غیر معمولی مبینہ جرائم میں نفسیاتی جانچ لازمی ہوتی ہے۔ شدید ڈپریشن، سائیکوسس، ذہنی معذوری یا اور کسی وجہ سے حقیقت سے منقطع رابطہ اگر ایسے جرائم کی وجہ ہو تو قانون اور ذہنی صحت کے ادارے باہمی گٹھ جوڑ سے ایسا حل نکالتے ہیں کہ مریض کا مرض بہتر ہو اور مرض کی نوعیت کی وجہ سے درپیش رسک کا بہتر طریقے سے انتظام ہو سکے۔ شخصیت کے آزار اور سائیکوپیتھی کو ان امور میں بیماری کے درجے سے عموما نیچے رکھا جاتا ہے اور ذہنی امراض کا چھاتا نہیں اوڑھایا جاتا۔
یہ خاتون تقریبۤا مہینہ بھر کے قریب وارڈ میں داخل رھیں۔ Typical ڈپریشن سے نبرد آزما ہوتی ہوئی ماں جو دنیا سے مایوس ہو کر دوسری دنیا میں شاید بچوں کی بہتری کی امید میں یہ عمل کر گزری۔ ۔ یہ خاتون سائیکوسس کا شکار نہیں تھی بلکہ ڈپریشن جیسی بیماری کی شدت اس نوعیت کی ہوگئی کہ اتنے خطرناک عمل پہ مجبور کر ڈالا ۔ شخصیت کی پیچیدگیاں، بچپن کے تلخ واقعات اور سگریٹ یا نشے کا استعمال بیماری یا بغیر بیماری کے ہونے والے اعمال میں خطرناکی کا عنصر کئی گناہ بڑھا دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیماری سے بہت پہلے ہی اگر آپ کی شخصیت اور جذباتی صحت آپ کو اور دوسروں کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے تو کسی بڑے نقصان سے پہلے اس پر توجہ دیں۔ ڈپریشن قابل علاج بیماری ہے۔ دوائیں، نفسیاتی علاج، مقناطیسی لہروں سے علاج (ٹی-ایم-ایس) اور دیگر کئی طریقوں کی مدد سے اس پر قابو پا کر زندگی بچائی بھی جا سکتی ہے اور اچھی گزاری بھی جاسکتی ہے۔
If you wish to lose weight naturally, homeopathy may indeed be something worth looking into.…
Dental caries or cavities are one of the most common childhood health issues. Acid produced…
Does your stomach hurt when you wake up in the morning? It can be pretty…
The color of your teeth can significantly impact your appearance and confidence. While everyone wants…
Sensitive teeth can be very painful. You may experience pain and discomfort after eating hot,…
Definition According to ROME IV Criteria Irritable bowel syndrome (IBS) is a common functional gastrointestinal…