Table of Contents
ڈینگی مچھروں کی وجہ سے پھیلنے والی ایک بیماری ہے جو کہ ڈینگی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس شہری اور نیم شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی کا وسبب بننے والا وائرس ڈینگی وائرس کهلا تا ہے۔ چار سیرو ٹائپس ہیں، اسکا مطلب یہ کہ اس وائرس سے چار بار متا ثر ہونا ممکن ہے۔
ڈینگی وائرس فی میل مچھر ایڈس کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر 100 سے زائد ممالک میں عام ہے۔ ڈینگی وائرس ہونے کی وجوہات، علامات اور علاج و احتیاط بر وقت کرنے سے اس وائرس سے خود کو اور اپنے عزیزوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ڈینگی کے کیسز ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ڈینگی کی علامات، وجوہات اور علاج سے خود کو واقف کرنے کے لیے نیچے دیے گئے ڈینگی پر مضمون کو ضرور پڑھیں۔
ڈینگی بخار بظاہر ایک معمولی سی بیماری ہے، جو چند ہی روز میں خطرناک صورتحال اختیار کر لیتی ہےاور موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ڈینگی کا نشانہ عام طور پر ایسے افراد زیادہ بنتے ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ ڈینگی کا مچھر عام طور پر رنگین ہوتا ہےاس کا جسم زیبرے کی طرح دھاری دار جبکہ ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت لمبی ہوتی ہیں۔
ڈینگی بخار کی وجہ سے آپ کے پلیٹلیٹس بہت زیادہ گر سکتے ہیں۔ سنگین صورتوں میں آپ کو خون کی منتقلی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بالغوں میں پلیٹلیٹس کی عام تعداد 150,000 سے 450,000 میں ہوتی ہے لیکن اگر آپ کو ڈینگی ہے تو یہ 20000-40000 تک کم ہوسکتے ہیں۔ مزید انتظار مت کریں۔ ڈینگی کے علاج کے لیے آج ہی اولا ڈاک کی مدد سے کسی بھی جنرل فزیشن سے رجوع کریں۔
ڈئنگی سے متاثرہ چار میں سے ایک شخص بیمار ہو جائے گا۔ ان لوگوں کے لیے جو ڈینگی سے بیمار ہو جاتے ہیں، ان کی علامات ہلکی یا شدید ہو سکتی ہیں۔ شدید ڈینگی چند گھنٹوں میں جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اور اسے اکثر ڈاکٹ کی نگرانی میں دیکھ بھال کی ضروت ہوتی ہے۔
ڈینگی کی ہلکی علامات دوسری بیماریوں سے الجھ سکتی ہیں جو بخار، درد اور درد کا سبب بنتی ہیں۔
:ڈینگی وائرس کی عام علامات درج ذیل ہیں
ڈینگی بخار کی پہلی علامت یہ ہے کہ مریض کے سر میں شدید قسم کا درد ہوتا ہے۔
ڈینگی وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی تیز بخار ہو جاتا ہے جو کہ 104 اور 105 سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے جسم کے درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی ہوتی ہے۔
ڈٰنگی وائرس کے سبب کمر کے پچھلے حصے میں، اور ٹانگوں اور پٹھوں میں شدید درد ہوتا ہے۔
بخار کے باعث ڈائریا بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے جسم سے نمکیات خارج ہو جاتی ہیں اور مریض میں کمزوری بڑھ جاتی ہے۔
ڈینگی کے متاثرہ مریض کو شدید بخار کے سبب ہر وقت غنودگی طاری رہتی ہے۔
اس بیماری میں ابتدائی طور پر جسم میں خراشیں پر جاتی ہیں اور اکثر مریض کی جلد اترنے لگتی ہے۔
جب یہ سردرد، بخار،متلی اور قے ،کمر درد جسم میں سرخ دانے نکلنے جیسی علامات ظاہر ہوں تو فوری مریض کو ڈاکٹر کو دکھا لینا چاہیے اور خون کا ٹیسٹ کروا لیں، ورنہ اگر اسے بروقت نہ دکھایا جائے تو پھر “ڈینگو ہمبرج فیور شروع ہو جاتا ہے جو کہ جان لیوا ہے اور ساتھ زیادہ بخار بڑھ جانے کی صورت میں دماغ کی رگیں پھٹ جانے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈینگی وائرس کی صورت میں جسم میں سرخ خلئیے ختم ہو جاتے ہیں۔
اس بیماری کو پھیلانے والی مچھر(Ades Egypting) مادہ ہوتی ہے۔ مادہ مچھروں کو انڈا دینے کے لیے خون کی ضروت ہوتی ہے جو وہ انسان کو کاٹ کر پوری کرتی ہے۔ کاٹنے والی مادہ مچھر اپنی تھوک نکالتی ہے جو کہ خون کو جمنے نہیں دیتا اور اس دوران وہ اپنے انڈے کے لیے درکار خون حاصل کرلیتی ہے۔ یہ مچھر صبح طلوع آفتاب سے لے کر
اگراس کی تھوک میں ڈینگی وائرس موجود ہو تو اس شخس کو ڈینگی بخار ہونے کے مکمل امکان ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بیماری ڈیلیوری کے وقت ماں سے بچے میں اور خون کی منتقلی کے دوران بھی پھیل سکتی ہے۔
ڈینگی بخار وائرس کی چار اقسام میں سے کسی ایک کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آپ کسی متاثر شخص کے آس پاس رہنے سے ڈینگی بخار حاصل نہیں کر سکتے۔
جب مچھر ڈینگی وائرس سے متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے تو وائرس مچھر میں داخل ہع جاتا ہے۔ پھر جب متاثرہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹتا ہے تو وائرس اس شخص کے خون میں داخل ہوتا ہے اور انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔
ڈینگی بخار سے صحت یاب ہونے کے بعد آپ کو وائرس کی طویل مدتی استثنی حاصل ہوتی ہے جو کہ آپ کو دوبارہ متاثرہ کر سکتی ہے۔
یہ مچھر صبح طلوع آفتاب سے لے کر 8 بجے تک اور شام غروب آفتاب کے وقت باہر نکلتے ہیں اور لوگوں کو کاٹتے ہیں۔ امریکی تحقیقات کے مطابق ڈینگی بخار کا مرض امریکی بند گاہ پر پرانے برآمد شدہ ٹائروں میں کھڑے پانی کی وجہ سے پھیلا ہے۔
ڈینگی وائرس کی منتقلی اس وقت ہوتی ہے جب کسی متاثرہ شخص کو انٹر میڈیٹ مچھر نے کاٹ لیا ہو۔ متاثرہ لوگوں سے وائرس مچھروں کے زریعہ لے جائیں گے، اور دوسرے لوگوں کو بھی مبتلا کریں گے جو مچھروں کے کاٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ڈینگی وائرس صرف مچھروں کے زریعہ پھیلتا ہے، نہ کہ ایک شخص سے دوسرے شخص تک۔
جب کوئی DEN1, DEN2,DEN3, DEN4 ڈی انجیو وائرس کو چار اقسام میں تقسیم میں کیا گیا ہے، یعنی انجیو وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کامیاب کے ساتھ بازیافت ہوتا ہے تو اس کا جسم اس D شخص ایک قسم کے وائرس کے خلاف تاحیات استسنی پیدا کرے گا۔ تاہم ،ایک وائرس سے استسنی دیگر قسم کے ڈٰنگی وائرس سے انفیکشن کو مسترد نہیں کرتا ہے۔ در حقیقت، جو بھی شخص ڈٰینگی وائرس سے متاثر ہوا ہے اس میں دوسری بار انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔
ڈینگی وائرس کے انفیکشن کا تجربہ کرنے کے علاوہ، دوسرے عوامل جو انسان کے ڈینگی بخار کے خطرہ کو بڑھا سکتے ہیں وہ اشنکڈبند کی زندگی گزار رہے ہیں یا سفر کررہے ہیں۔ بچوں ،بوڑھوں اور کمزور استسنی والے لوگوں کے لیے بھی ڈینگی بخار کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اوپر بتائی گئی علامات کی موجودگی کی صورت میں ڈایکٹر ڈاکٹر مندرجہ ذیل ٹیسٹس تجویز کر سکتا ہے۔
یہ ٹیسٹ علامات ظاہر ہونے کے 7 دن بعد تک کیا جاسکتا ہےاور یہ انسان کے سیرم میں وائرس کا جینیٹک میٹیرل کی موجودگی بتاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ بھی علامات ظاہر ہونے کے 7 دن کے بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ خون میں وائرس کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی کا پتہ چلاتے ہیں۔ آئی جی اے انفیکشن کے 5 دن بعد جبکہ آئی جی ایم 2 سے 4 ہفتوں بعد بنتی ہیں۔
یہ دونوں ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر کی تشخیص بلا شک و شبہ ڈینگی کی بن جاتی ہے۔
اس بخار کا کوئی واضح ولاج موجود نہیں ہے لہذا ڈاکٹرز علامات کو کم کرنے کے لیے ادوایات تجویز کرتے ہیں۔ اس بخار کی معمولی علامات کی صورت میں محض پین کلرز جیسا کہ پینا ڈال بھی کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس بیماری کی صورت میںایسپرین فطا استعمال نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے خون بہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
شدید علامات کی صورت میں ہسپتال داخل کیا جاتا ہے اور آئی وی لائن کے ذریعے بلڈ ٹرانسفیوثن یا فلودز دیے جاتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کا علاج اب گھریلو نسخوں سے بھی کیا جا سکتا ہے جو بہت جلدی اس بخار سے نجات دلواسکتے ہیں۔ ڈینگی کی وجہ سے جسم میں وائٹ بلڈ سیلز کم ہو جاتے ہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سب سے بہترین غذا پپیتے کے پتے ہیں جو بہت جلدی اس کمی کو پورا کرتے ہیں جس سے ڈٰینگی وائرس سے نجات مل سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک انقلابی تجربے میں ڈینگی بخار کے کیسز 77 فیصد کمی کی گئی ہے،اس سے تجربے میں یہ نتائج ڈینگی بخار پھیلانے والے مچھروں میں ردوبدل کر کے حاصل کیے گئے ہیں۔
مچھروں کے عالمی پروگرام کی ٹیم کا کہنا کہ اس طریقے سے پوری دنیا میں ڈینگی وائرس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
ڈینگی وائرس سے دنیا بھر میں سالانہ 25 ہزار اموات اور 39 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈینگی سے ہونے والی اموات دنیا میں ہونے والی اموات کا 4 فیصد ہیں اور احتیاط کے ذریعے ہی اس مرض سے بچنا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
A tickle in throat can be irritating, right? It can lead to a relentless urge…
In today's fitness-conscious world, food choices are changing rapidly. Brown bread has taken center stage…
Liposuction, also referred to as suction-assisted lipectomy, is a major cosmetic surgical intervention carried out…
For some, pregnancy is often a joyous time of anticipation and excitement as the mother…
Femto LASIK, or femtosecond laser-assisted in situ keratomileusis, is a cutting-edge refractive eye surgery that…
Diagnosis, particularly with mental health conditions, is one of the great challenges we face as…