ڈبلن کی ایک سرد اور گیلی دوپہر جب کام کرنے سے زیادہ چائے پینے کا دل کرتا ہے، ایک جونیئر ڈاکٹر کے ہاتھ ایک referral موصول ہوا کہ نفسیاتی وارڈ سے 31 سالہ مریضہ میڈیکل وارڈ میں شفٹ ہوئی ہے اور اب آپ کی ٹیم اسے دیکھے گی۔ میں ان دنوں Liaison کے شعبے میں کام کر رہا تھا اور نفسیاتی وارڈ کے علاوہ پورے ہسپتال کے دوسرے وارڈوں اور ایمرجنسی میں موجود نفسیاتی مریضوں کو ہماری ٹیم علاج فراہم کرتی تھی۔ سوچا کوئی اوور ڈوز یا Eating disorder کا کیس ہوگا جو عمومی طور پر ہم دیکھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ مریضہ قدرے مختلف ہے اور پہلے ہسپتال اور پھر قانون کے ایوانوں میں ہلچل مچا چکی ہے۔ خاتون کی مرضی کے خلاف مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت ان کا داخلہ نفسیاتی وارڈ میں کیا گیا۔ وہ دس روز سے بھوکی تھیں اور فرماتی تھیں کہ وہ خدا کی زوجہ ہیں اور خدا نے ان کو ہیلتھ سروسز کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے چالیس روز بھوکا رہنے کا عندیہ دیا ہے۔Mental Health Act کے تحت ڈاکٹر نفسیاتی علاج کر سکتے ہیں مگر خوراک والی نالی ڈال کر فورس فل فیڈنگ نہیں۔ مریضہ کی جسمانی حالت کو بنیاد بنا کر ہائی کورٹ، جی ہائی کورٹ سے تحریری اجازت نامہ لیا گیا کہ نلکی ڈال کر زبردستی خوراک دی جائے۔ وطن عزیز ہوتا تو نہ جانے اس خاتون کا کیا انجام ہوتا۔ کچھ نہ بھی ہوتا تو مرضی کے خلاف علاج کے لئے اتنے پاپڑنہ بیلنے پڑتے کہ قانون کا سہارا لے کر بے شمار فارم فل کرکے داخلہ کرو اور پھر ہائی کورٹ سے خوراک دینے کے آرڈر لو۔
مریضہ کو میڈیکل وارڈ میں اس لیے منتقل کیا گیا تھا کہ وہ دس دن کے فا قے یا روزے کی وجہ سے نمکیات اور شوگر کی کمی کا شکار تھیں اور دل کی رفتار بھی سست تھی۔ جب تک جسمانی بحالی نہ ہوتی اس نے وہیں رہنا تھا اور ہماری ٹیم نے نفسیاتی علاج بھی میڈیکل وارڈ ہی میں کرنا تھا۔ مسائل کا انبار تھا اور ہر مسئلہ دوسرے سے زیادہ گمبھیر تھا۔ پہلا مسئلہ درست جانچ اور تشخیص کا تھا کہ نفسیاتی بیماری ہے کس نوعیت کی؟ منہ سے گولی نہ لینے اور دل کی حرکت سست ہونے کی وجہ سے ادویات کی choice بھی بے حد محدود تھی۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ صحت گر رہی تھی اور forceful feedingکے لئے ہائی کورٹ آرڈر درکار تھا۔ امراض قلب، جنرل میڈیکل اور نفسیات کی ٹیموں کی میٹنگ میں بہترین لائحہ عمل طے ہوا کہ مریض کی مدد کا مؤثر ترین طریقہ آزمایا جائے۔ ۔
سائیکوسس کیا ہے؟ حقیقت سے رابطہ کٹ جانا۔ ان آوازوں کا آنا جو دوسروں کو نہیں آتیں((Hallucinations۔ ان باتوں کا یقین ہونا جو باقیوں کے لیے وجود نہیں رکھتیں(.(delusions خود سے رابطہ منقطع ہو جانا۔ اپنا دماغ، سوچیں، جذبات اور حرکات کسی اور کے کنٹرول میں معلوم ہونا۔ دماغ کے کیمیائی اجزاء کا ایک خاص مقدار سے بڑھ جانا مریض کو ایک اور ہی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جو اس کے لئے حقیقی اور دوسروں کے لئے غیر حقیقی ہوتی ہے۔گمان حقیقت بن جاتے ہیں اور ان گمانوں کی نوعیت خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ اس بات کا یقین کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے اپنی اور اپنے بچوں کی جان لینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس بات کا یقین کہ آپ کا ہمسایا اپکے خلاف ہے اور اپ کو مارنا چاہتا ہے، آپ اس کی جان کے درپے ہو سکتے ہیں۔ یہ یقین کہ آپ خدا یا اس کے پیغمبر ہیں، آپ کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے اور دین کے علمبردار جب تک یہ جان پائیں گے کہ خدائی دعوی آپ کا قصور نہیں بلکہ ڈوپامین کا ہیر پھیر ہے، قوی امکان ہے کہ آپ زمین سے چھ فٹ نیچے پہنچ چکے ہوں گے۔
ہماری مریضہ بھی psychotic illness (Schizophrenia) کا شکار تھی۔ خدا کی آوازیں سنتی تھی اور یقین کیے بیٹھی تھی کہ وہ خدا کی بیوی ہے۔ چالیس دن بھوکا رہ کر ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتی ہے۔ مجھ سے اپنی بات سمجھنے کی زیادہ توقع رکھتی تھی کہ میں بھی تو سال کے تیس دن خدا کے حکم پر فاقے کرتا ہوں تو اس کا فاقہ بیماری اور میرا روزہ دین کیسے ہو گیا۔ Delusions کو سمجھاتے ہوئے میں اکثر میڈیکل سٹوڈنٹس کو یہ کہتا ہوں کہ تعریف کا حصہ ہے کہ یہ وہ غلط یقین یا اعتقاد ہے جو مذہب اور کلچر سے واضح نہ ہو۔ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا مگر اس کے وجود کو بے شمار لوگ مانتے ہیں تو یہ delusion کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ خدا کی آوازوں کا آنا، خدا کی بیوی ہونے کا یقین ہونا اور فاقہ کرکے احتجاج ریکارڈ کرانا، لوکل کلچر یا مذہب سے واضح نہیں ہوتا لہزاسے psychotic قرار دینا اور اس کی مرضی کے خلاف علاج کرنا ہی مناسب قدم ٹھرا۔
پاکستان میں گورنمنٹ ہسپتال کے تجربے اور جیل سے لائے گئے مبینہ ملزمان کو دیکھ کر یہاں ذہنی صحت کے انفراسٹرکچر کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ توہین رسالت کے الزام میں، خدائی دعوے کے الزام میں کئی bipolar disorder اور Schizophrenia کے مریض اپنی زندگی کے دن جیل کی کال کوٹھریوں میں پورے کر رہے ہیں۔ Bipolar disorder کے تو کئی مریض بیماری کے اٹیک کے درمیان مکمل صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری کی مکمل معلومات بھی رکھتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ ان لوگوں کا جیل میں رہنا ہی شاید ان کی زندگی کی ضمانت ہوتا ہے۔ معاشرے کے نام نہاد نارمل اور مذہبی لوگ ان کے عمل کا محرک جاننے سے پہلے ہی شاید انہیں جہنم واصل کر دیں۔
ہفتہ وار اینٹی سائیکوٹک ٹیکوں سے خدائی آوازیں بھی بند ہوگئیں فاقے کا کفر بھی خدا خدا کر کے ٹوٹ گیا، نلکی باہر نکال لی گئی، منہ سے خوراک لینا شروع ہوگئی اور پہلے میڈیکل وارڈ سے نفسیاتی وارڈ اور پھر وہاں سے گھر کے لیے ڈسچارج ہو گیا۔ خدا کی آوازیں سننے اور اس کی بیوی بننے کے یقین پر کھانا بند کرنے سے لے کر ان علامات کو بیماری کا حصہ سمجھنے اور دوائی کھا کر ٹھیک رہنے کے عہد تک، ہم نے ٹیم کے طور پر مریضہ کے ساتھ سفر کیا۔ جب زات کی سرحدیں گڈمڈ ہوجائیں اور گمان حقیقت بن جائے اور صرف آپ کے لیے ہی بنے تو ایسے لوگوں کو empathy کی اور علاج کی ضرورت ہے۔تمسخر، قید، الزامات اور امتیازی سلوک چاہے افراد کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے نفسیاتی بیماریوں کے شکار مریضوں کو سوائے معاشرے کا غیر فعال رکن بنانے کے اور کچھ نہیں کرتا۔ آپ کے ارد گرد کوئی ایسا مریض ہے جس کا حقیقت سے رابطہ منقطع ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے تو اسے قریبی سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجیں۔
Gingivitis is an oral health issue that affects lots of people around the world. While…
If you wish to lose weight naturally, homeopathy may indeed be something worth looking into.…
Dental caries or cavities are one of the most common childhood health issues. Acid produced…
Does your stomach hurt when you wake up in the morning? It can be pretty…
The color of your teeth can significantly impact your appearance and confidence. While everyone wants…
Sensitive teeth can be very painful. You may experience pain and discomfort after eating hot,…