گو ایسی کوئی مخصوص خوراک تو موجود نہیں جو کرونا وائرس کے حملے سے بچاؤ یا اس سے بیمار پڑجانے کے تیر بہدف نسخے کے طور پر استعمال کی جاسکے پھر بھی ایسی غذائیں جو ہمارے مدافعتی نظام کو تقویت دینے والی ہوں کا استعمال اس سے بچاؤ کی ایک اچھی تدبیر ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک قوی مدافعتی نظام کرونا وائرس کے حملے سے بچاؤ یا اس کی وجہ سے جلد صحتیاب ہونے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ اس لیے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسی کوئی قوت بخش یا جادو اثر خوراک موجود نہیں ہے جو اس وائرس سے بچاؤ یا اس کی وجہ سے بیمار پڑ جانے کی صورت میں کار آمد ثابت ہو سکتی ہو۔
کرونا وائرس کے عالمی طور پر اایک وبأ کی صورت میں پھیل جانے نے اس سے خوفزدہ عوام میں بڑی عجیب و غریب افواہوں کے پھیلنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ اس لئے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ نہ تو کسی غیر مصدقہ معلومات پر کان دھرا جائے اور نہ ہی ایسی معلومات کو پھیلانے کے عمل میں شریک ہوا جائے۔ اس لیے بہترین بات یہ ہوگی کہ صرف ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن کی تصدیق سائنسی معلومات سے کی گئی ہو۔
Table of Contents
کیا کھایا جائے؟
لوگ ایسی خوراک اور کھانوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں کورونا وائرس سے محفوظ رکھ سکے۔ اگر آپ کبھی کسی وائرسی حملے کے شکار ہونے کے تجربے سے گزر چکے ہیں تو اس کا بخوبی علم رکھتے ہونگے کہ ایسی کوئی کھانے کی چیز نہیں جو آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی فاصلے کو ہی اس سے بچاؤ کی بہترین تدبیر قرار دیا گیا ہے۔
آجکل ایسے اشتہارات کی بھرمار ہے جن میں ایسی قوت بخش غذاؤں کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے جو کرونا کے خلاف قوتِ مدافعت میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ آپ کو اس کھلے فرییب اور دھوکہ دہی سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ ایسی کوئی خوراک اپنا وجود نہیں رکھتی جو خصوصی طور پر کرونا سے بچانے والی ہو یا اس کا تدارک کر سکتی ہو۔ ماہرین نے اس وبأ کے دوران صرف صحت بخش خوراک لینے کی سفارش کی ہے اور ایسی کسی مخصوص خوراک کی نشان دہی نہیں کی جو اکیلی اس مرض کی دوا ثابت ہو سکتی ہو۔
طبی اور غذائی ماہرین کے مطابق اچھی اور صحت بخش خوراک آپ کی صحت کو تادیر برقرار رکھتی ہے اور اگر آپ کسی وائرسی بیماری میں مبتلاء ہو بھی جائیں تو آپ کی جلد صحتیابی میں مدد گار ہوتی ہے۔ کرونا سے بچاؤ کے لیے مجوزہ خوراک، انہی قدرتی اور نامیاتی (organic) غذاؤں پرمشتمل ہوگی جو عمومی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے لازم قرار دی جاتی ہیں جیسے کہ تازہ پھل اور سبزیاں اور کم چربی والا گوشت اور بے چھنے آٹے سے بنی ہوئی روٹی وغیرہ۔
اس طرح کی خوراک کا استعمال آپ کے مدافعتی نظام کو بحسن و خوبی فعال رکھے گا اور اس سے اینٹی آکسیڈینٹ، جیسے کہ وٹامن سی اور ڈی اور زنک، کی وافر مقدار بھی دستیاب ہو جائے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اس خیال کو بھی کوئی سائنسی تائد حاصل نہیں ہے کہ مدافعتی نظام کو طاقت دینے میں سبزیوں کی وافر مقدار سے اپنے جسم کا بوجھ بڑھانے کی کوئی افادیت نہیں ہے۔
اپنے جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا بھی اچھی صحت کے لیے ایک ضروری امر ہے۔ لیکن بہت زیادہ اور بار بار پانی پینے کی کرونا سے حفاظت کے حوالے سے کوئی افادیت نہیں ہے۔
ہمارے جسم میں اس کے اپنے بیکٹیریا بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں مائکروبائیوم (micro biome) کہتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ہمیں بیمار کرنے والے بیکٹیریا سے بچانے کا کام کرتے ہیں۔ معمر اور کسی دائمی مرض کے شکار افراد میں یہ بیکٹیریا زیادہ فعال نہیں رہتے لہٰذا ایسے افراد کو بیماری کے شکار ہونے کے زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔
لندن کے یونیورسٹی کالج کے پروفیسر اور برٹش سوسائیٹی فار امیونولوجی کے صدر پروفیسر آرنے اکبر کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسی شئے جو جسم کے مائکروبایوم کو بدلنے والی ہو، صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لہٰذا آنتوں میں موجود صحت دوست بیکٹیریا کو بچانے، اور کسی بھی قسم کے متعدی امراض کے خلاف انتڑیوں میں ایک حفاظتی حصار قائم کرنے کے لیے ایک زیادہ قسم کے اجزاء پر مشتمل اور ریشوں یعنی فائبر سے بھپور غذا کا لینا بہت اہم ہے۔ دالیں، زیادہ ریشہ دار سبزیاں اور خمیر کردہ غذائیں انتڑیوں میں موجود صحت دوست بیکٹیریا کی افزائش کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں۔
کیا نہیں کھانا چاہیے؟
طبی ماہرین میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ناقص اور غذائی حراروں کی قلیل مقدار پر مشتمل خوراک آپ کے جسم کی متعدی امراض سے لڑنے کی صلاحیّت میں کمی لاتی ہے۔ چونکہ کرونا کی بیماری ایک وائرسی بیماری ہے لہٰذا اس کے مقابلے کا زیادہ انحصار ہمارے اپنے مدافعتی نظام کے بہتر اور فعال ہونے پر ہے۔ اسی لئے ہر وہ غذا جو مدافعتی نظام کو تقویت نہ دینے والی ہو بیماری سے اچھا ہونے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔ غذائی حراروں سے عاری ، صنعتی عمل سے گزاری گئی، صرف بھوک مٹانے کے لیے تیار اور بہت زیادہ صاف کردہ چینی پر مشتمل خوراک ہمارے مدافعتی نظام کے لیے نقصان دہ اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کرنے والی ہوتی ہے۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر جسم میں اہم کردار کے حامل وٹامنوں اور معدنی عناصر(منرلزminerals ) کی کمی ہو جائے تو متعدی امراض بشمول کرونا سے موت واقع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ناقص خوراک کے علاوہ جو چیزیں ہمارے دباؤ میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں ان میں تمباکو نوشی اور شراب سرِ فہرست ہیں۔ تمباکو نوشی کے عادی افراد کے پھیپھڑے پہلے ہی کمزور ہو چکے ہوتے ہیں لہٰذا ان کے کسی بھی انفیکشن کے شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ شراب سے مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے جس سے جسم کے صحت یاب ہونے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
جھوٹ پر مبنی اطلاعات
کرونا سے بیمار ہونے یا بیمآر ہونے سے بچنے کے لیے مفید ثابت ہو سکنے والی غذاؤں کے بارے میں آجکل سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی غذاؤں کا تذکرہ عام ہے جن کی ایسی کوئی افادیت سائنسی طور پر مسلمہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس پوسٹ کہ ‘‘نیاز بو کا تیل (oregano oil)’’ کرونا کے خلاف مفید ہو سکتا ہے’’ کی کوئی سائنسی تصدیق مو جود نہیں ہے اور یہ صریحاً ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ ایسے اور دعووں میں یہ بھی شامل ہے کہ وٹامن سی کا بکثرت استعمال اور مصالحے دار کھانوں سے پرہیز، کرونا کے خلاف لڑنے میں مددگار ہوتا ہے۔
بعض ایسی ہدایات بھی نشر کی جارہی ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں جیسے کہ بلیچ کا پینا اور کوکین کا سونگھنا کرونا کو غیر موثر بنا دیتا ہے۔ بعض لوگ غذا میں سے ٹھنڈے مشروبات، آئس کریم اور ملک شیک کو نکالنے پر مشتمل تبدیلی لانے کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز اور پوسٹیں کسی بھی سائنسی بنیاد سے عاری ہیں اور ان سے گمراہی پھیلنے کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایسی صورتحال میں کہ جب ہر طرف جہالت پھیلانے کا کام عروج پر ہو، ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہ تو خود ہی ان پر یقین کریں اور نہ ہی انکے مزید پھیلاؤ میں کوئی کردار ادا کریں۔
اس دعوے کی بھی کوئی سائنسی بنیاد نہیں کہ پانی کا زیادہ پیا جانا وائرس کے پھیپھڑوں میں چپک جانے کو روکتا ہے۔ گو یہ ایک حقیقت ہے کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا جسمانی صحت کے لیے ایک عمومی طور پر اچھی بات ہے لیکن اس کا انفیکشن کو روکنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
بوسٹن، امریکہ، کے ساؤتھ شور ہسپتال میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر سیمون ویلڈس کا کہنا ہے کہ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ جسم کے اندر پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہماری مجموعی صحت کے لیے اچھا ہے لیکن اس دعوے کو کوئی سائنسی تائد حاصل نہیں ہے۔
اس امر کو یقینی بنائیں کہ کرونا وائرس کے حوالے سے جو معلومات بھی آپ تک پہنچائی جارہی ہے وہ کسی معتبر زریعے سے حاصل کی گئی ہوں۔ اور کوشش کریں کہ آپ زیادہ سے زیادہ محفوظ رہیں اور سماجی فاصلے کے اصول پر کاربند رہیں۔
انتباہ (Disclaimer)
اس مضمون کے مندرجات صحت کے عمومی مسائل سے آگاہی فراہم کرنے کی نیّت سے تحریر کیے گیے ہیں اور انہیں اپنی صحت کے کسی مخصوص مسئلہ کے حل کی مسلمہ طبی تجویز کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ آپ اس مضمون میں تجویز کردہ کسی بھی دوا کے استعمال یا طبی طریقے پر عمل کرنے سے قبل کسی بھی مستند ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کر لیں۔