امریکہ کے بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے مرکز سی ڈی سی (CDC) والوں نے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ حاملہ خواتین پہلے ہی سانس کی بیماریوں میں مبتلاء ہونے کے خطرے سے دو چار ہوتی ہیں لہٰذا ان کے کرونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے ہونے والی بیماری کووڈـ19 میں مبتلاء ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
گو کرونا کی وباء کے، حاملہ خواتین کے لیے خطرات کی درست ترین نشاندہی کے لیے ابھی کافی تحقیق اور اعدادوشمار میسر نہیں ہیں لیکن ماضی میں کرونا کی طرح کے ہی‘ سارس کو وی (SARS-CoV)’ اور انفلوئنزا جیسے سانس کے اعضاء کے انفیکشن سے حاملہ خواتین کو پہنچنے والے نقصان کے مطالعے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی وباء کا پھیلنا بھی حاملہ خواتین کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
حمل کے دوران حاملہ خواتیں کے جسم میں بعض ایسی مدافعتی اور فعلی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جن سے انکے کسی انفیکشن کے شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی کسی بھی جراثیمی حملے سے بچاؤ کی صلاحیت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں حاملہ خواتین کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ چند ایک احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ذیل میں ایسی ہی چند تدابیر بتائی جارہی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر حاملہ خواتین خود کو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
Table of Contents
آپ خود کو کیسے محفوظ رکھیں؟
اگر آپ حاملہ ہوں تو پہلا کام جو آپ کو کرنا ہے وہ سماجی فاصلے کے اصول کی سختی سے پاپندی ہے۔ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں اور جہاں تک ممکن ہو سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کریں۔ اگر آپ ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں تو جب بھی ممکن ہو گھر سے کام کرنے کا طریقہ اپنائیں؛ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے ادارے سے کہیں کہ وہ دفتر میں ایسا ماحول بنائیں کہ جس میں آپ، اور لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر اپنا کام کر سکیں۔
خود کو باہر کی دنیا کا سامنا ہونے بچانے کے لیے، آج کے جدید طور میں رائج ریموٹ تیکنالوجی کا استعمال، بڑھا دیں۔ یہ نہ بھولیں کہ آپ عام لوگوں کی نسبت کرونا وائرس سے انفیکشن کے شکار ہونے کے خطرے کی زیادہ زد میں ہیں؛ لہٰذا آپ کو اس سے بچنے کی تدابیر کو زیادہ سختی سے عمل میں لانا ہوگا۔
صحتِ عامہ کے ذمہ داران کی طرف سے جاری کردہ عملی ہدایات کی مکمل پاسداری کریں اور کسی بھی طرح کی سماجی تقریب میں شرکت سے گریز کریں۔ حاملہ خواتیں کے لیے حمل کی تیسری سہ ماہی (28یا زائد ہفتوں کا حمل) کے دوران سماجی فاصلے کا خیال رکھنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے انہیں اس دوران ہر طرح کے سماجی میل جول کو ترک کر دینا چاہیے۔
دورانِ حمل پیدائش سے پہلے کی طبی نگہداشت یا اپنے اینٹی نیٹل (antenatal) معائنے کے لیے آپ صرف اسی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جائیں کہ جب آپ میں کرونا وائرس کے انفیکشن سے متاثر ہونے کی کوئی علامات نہ پائی جارہی ہوں۔ اگر آپ میں کوئی ہلکی سی بھی علامت پائی جائے یا آپ کو شک بھی ہو تو آپ اپنے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرکے پوچھ لیں کہ کیا آپ انکو اپنا چیک اپ، الگ رہنے کا عرصہ گزرنے کے بعد، کروا سکتی ہیں یا نہیں؟
اگر آپ اپنا روٹین کا الٹراساؤنڈ کروانے جانا چاہتی ہوں تو زچہ بچہ سینٹر ایسے وقت جائیں جب وہاں رش نہ ہو اور وہاں پر متعین طبی عملے کی بھی کم سے کم تعداد موجود ہوتی ہو۔ آپ کو کسی بھی ایسے شخص سے جس میں کرونا کی ہلکی سی علامات بھی پائی جاتی ہو یا کسی بھی عام نزلہ زکام کا شکار نظر آنے والے شخص سے دور رہنا چاہیے یا کم ازکم 6 فٹ کے فاصلے پر رہنا چاہیے۔ آپ کو خود بھی چھینکتے یا کھانستے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ایسا کرتے وقت تشو کا استعمال کرنا چاہیے۔
صحت کے شعبے میں کام کرنے والی حاملہ خواتین کے لئے احتیاطی تدابیر
صحت کے شعبے میں کام کرنے والی ایسی حاملہ خواتین جو اپنے حمل کی پہلی اور دوسری سہ ماہی میں ہوں اور ان میں کسی بھی دائمی مرض کی کوئی علامات نہ پائی جاتی ہوں وہ مریضوں کی دیکھ بھال اور معائنے کا کام جاری رکھ سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اس کے دوران ذاتی حفاظتی سامان یا پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپ مینٹ یا پی پی ای (Personal Protective Equipment or PPE) کا استعمال کر رہی ہوں۔ اگر آپ کسی ایسے مریض کا معائنہ کر رہی ہوں کہ جس کا کووڈـ19 کا مریض ہونا ثابت ہو چکا ہو یا اس کے اس مرض کے شکار ہونے کا شک پایا جاتا ہو تو آپ کو اس سے انفیکشن کے منتقل ہونے کے تمام تر خطرے کا مکمل جائزہ لیکر اسے کرنا چاہیے۔ ایسی حاملہ خواتین جو انفیکشن کا شکار ہونے کے انتہائی زیادہ خطرے کی زد میں کام کرتی ہوں جیسے کہ آپریشن تھیئیٹر، انتہائی نگہداشت کے وارڈ اور ریسپائریٹری وارڈ وغیرہ، تو ان کے لئے پی پی ای کا استعمال لازمی ہوگا۔
اپنے حمل کی تیسری سہ ماہی یا کسی بھی دائمی مرض کی علامات رکھنے والی حاملہ صحت کی کارکن خواتین کو کسی مریض سے براہِ راست تعلق سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہسپتال کی انتظامیہ کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ہاں کام کرنے والے طبی عملے کو کسی بھی قسم کے ذاتی خطرے سے محفوط رکھا جا سکے۔ مزید برآں، ہسپتال انتظامیہ کو اس کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ہاں ملازم حاملہ خواتین مریضوں سے کم سے کم براہِ راست رابطے میں آئیں اور وہ جہاں تک ہو سکے محفوظ اور آرام دہ ماحول میں اپنا کام کر سکیں۔
دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے احتیاطی تدابیر
اب تک کی تحقیق سے ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے کہ جن سے کووڈـ 19 کی بیماری میں مبتلاء کسی ماں کے دودھ میں کسی وائرس کا پایا جانا ثابت ہو۔ پھر بھی ماں کے دودھ کے زریعے وائرس کی منتقلی کے امکانات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
ماں کو اپنے بچے کو دودھ پلانا بھی چاہیے یا نہیں یا کب پلانا شروع کرنا چاہیے اس کا فیصلہ صرف طبی ماہرین کو ہی کرنا چاہیے۔ ماں اپنے بچے میں وائرس اپنے دودھ کی نسبت اپنے سانس کے زریعے زیادہ ممکنہ طور پر منتقل کر سکتی ہے۔ لہٰذا ماؤں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے دوران عمومی حفاظتی تدابیر جیسے کہ ماسک کا استعمال وغیرہ کا اہتمام کر نا چاہیے۔
جسم پر اثرات
گو کرونا کی وبا کے دوران حمل کے اس سے متاثر ہونے کے بارے میں تحقیق ابھی بڑے ابتدائی مراحل میں ہے اور حتمی نتائج سے عاری ہے تاہم پھر بھی ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ جنکی وجہ سے یہ سامنے آیا ہے کہ کووڈـ19میں مبتلأ حاملہ خواتین کا ان کے رحم میں پرورش پا رہے بچے پر کوئی منفی اثر پڑا ہو جیسے کہ قبل از وقت پیدائش۔
چین میں بعض خواتین میں یہ دیکھنے میں آچکا ہے کہ وہ اپنے حمل کی مدت کے پورا ہونے سے پہلے ہی زچگی سے دو چار ہوئیں۔ تاہم جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے یہ تحقیق ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے اور رحمِ مادر موجود بچے پر ماں میں موجود وائرس کے اثرات کے بارے میں ابھی کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔
مزید برآن ابھی تک اس امر کی تصدیق بھی نہیں ہو سکی کہ کیا وائرس آنول کو عبور کرکے رحمِ مادر میں پرورش پا رہے بچے میں منتقل ہو سکتا ہے یا نہیں۔؟ کیونکہ ابھی تک تو کووڈـ19 کی شکار خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے کسی بچے میں وائرس کے موجود ہونے کی کی کوئی علامت سامنے نہیں آئی۔
ایسے دو کیس دیکھنے میں آئے تھے کہ جن میں وائرس کے موروثی طور پر منتقل ہونے کا شک کیا جا سکتا ہو لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ نو مولود بچے میں موجود وائرس، اس میں پیدائش سے پہلے منتقل ہوا یا بعد میں۔ اب تک تو ماہرین اس پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس، ماں کے حمل کے دوران بچے میں منتقل نہیں ہوتا اور نہ ہی رحمِ مادر میں بچے کی پرورش پر اس کے کوئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں نسوانی امراض اور حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں پر تحقیق کرنے والے ادارے بالعموم اور امریکہ کے کالج آف آبسٹیٹریشینز ایند گائنیکولوجسٹس (The American College of Obstetricians and Gynecologists) اور سی ڈی سی بالخصوص، حمل کے دوران کرونا کے اس پر اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ملنے والے مصدقہ نتائج سے ہم آپ کو گاہے بگاہے آگاہ کرتے رہیں گے۔
کسی بھی قسم کی مشکوک علامات کے محسوس کرنے پر آپ کو چاہیے کہ فوری طور پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے قائم کردہ کسی ٹیسٹ سنٹر سے رابطہ کریں اور جبتک ٹیسٹ کے نتائج موصول نہ ہوں اپنے آپ کو اور لوگوں سے بالکل الگ کر لیں۔
انتباہ (Disclaimer)
اس مضمون کے مندرجات صحت کے عمومی مسائل سے آگاہی فراہم کرنے کی نیّت سے تحریر کیے گیے ہیں اور انہیں اپنی صحت کے کسی مخصوص مسئلہ کے حل کی مسلمہ طبی تجویز کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ آپ اس مضمون میں تجویز کردہ کسی بھی دوا کے استعمال یا طبی طریقے پر عمل کرنے سے قبل کسی بھی مستند ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کر لیں۔
ڈاکٹر حرا تنویر
اس مضمون کی مصنِّفہ ڈاکٹر حرا تنویر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور آج کل لاہور کے سی ایم ایچ ہسپتال میں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ لکھنا انکا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت و قابلیّت سے عوام الناس کو انکے صحت، عمومی خوشحالی، صحت بخش خوراک اور طرزِ زندگی سے معلقہ مسائل سے نپٹنے میں مدد فراہم کرنے میں دلی مسرّت محسوس کرتی ہیں۔