We have detected Lahore as your city

کزن میرج اور آپ کی صحت: حقائق، فوائد، اور نقصانات

Dr. Hira Tanveer

5 min read

Find & Book the best "General Physicians" near you

ہمارے یہاں ہر خاندان میں ایک ایسا جوڑا ضرور ہوتا جو آپس میں ایک دوسرے کے  کزن ہوتے ہیں اور ان کی آپس میں شادی کر دی جاتی ہے۔ کزن میرج کا­­­­ رواج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ آج کل آپ کسی بھی شادی میں چلے جائیں تو یہ بات عام سننے کو ملتی ہے کہ دولہا اور دولہن آپس میں کزن ہیں۔  کچھ جگہوں پر یہ شادی کامیاب ہو جاتی ہے جبکہ کچھ جگہوں پر ایسی شادیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

پاکستان میں کزن میرج سے متعلق حقائق

پاکستان میں فرسٹ کزن کے ساتھ شادی تقریبا 48۔5 ٪ لوگوں میں عام ہے جبکہ سیکنڈ کزن کے ساتھ شادی کرنا 7۔9 ٪ تک عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ اگر ہم ہمارے معاشرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو اپنے کزن کے ساتھ شادی کرنا بہت سے دوسرے ممالک میں ایک غلط بات سمجھی جاتی ہے اور قانونی طور پر ممنوع ہے جیسے کہ امریکہ جہاں اپنے کزن سے شادی کرنا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ اور اب یہ سوچ ہمارے ملک میں بھی نظر آنا شروع ہو چکی ہے کہ لوگ اب اپنے بچوں کی کزن میرج کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔

کزن میرج نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ایک یہ سمجھی جاتی ہے کہ جدید وقتوں میں میڈیکل ریسرچ سے یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ اس کی وجہ سے بچوں میں بہت سارے پیدائشی مسائل اور جینیاتی مسائل نظر آتے ہیں خاص طور پر ان بچوں میں جن کے والدین آپس میں کزن ہوتے ہیں۔ بچوں میں بہت سے پیدائشی مسائل جینیات کی تبدیلی کی وجہ سے سامنے آتے ہیں۔

ایک خراب جین تو کسی بیماری یا مسئلے کا سبب نہیں بنتا لیکن جب دو خراب جین آپس میں ملتے ہیں تواس کے کافی برے نتائج سامنے آسکتے ہیں اور یہ ماں باپ اور ان کے بچوں کے لئیے زندگی بھر کی آزمائش کا سبب بن سکتے ہیں۔ در اصل باز اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ خراب جین خاندان کی جینیات میں پائے جاتے ہیں اور جب ایک ہی خاندان کے دو بچے یعانی کہ یہ خراب جین والی دو کزن جب آپس میں شادی کر لیتے ہیں تو ان خراب جینیات کا بھی آپس میں ملاپ ہو جاتا ہے اور اس سے کبھی کبھار آپ کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ضروری نہیں ہے کہ ہر کزن میرج کے نتیجے میں اولاد میں کسی قسم کی خرابی سامنے آئے لیکن ایسے والدیں جن میں دونوں میں ایک جیسے خراب جین پائے جائیں تو ان کے بچوں میں پیدائشی مسائل سامنے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کزن میرج میں صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی کہ آج بھی ہمارے معاشرے بہت سے گھروں میں کزن میرج کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے۔

کزن میرج کے فوائد

تو بات ایسی ہے کہ جہاں ایسے معاملے میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ بہت سے سروے کے ذریعے ایک تحقیق کی گئی یہ جاننے کے لئیے کہ پوری دنیاں میں پاکستان میں کزن میرج کا رجحان سب سے زیادہ کیوں پایا جاتا ہے۔

تو اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ بہت سے پاکستانیوں کی یہ سوج دیکھی جاتی ہے کہ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی کا سسرال اس کا اپنا خاندان ہی ہوگا تو یہ اس کے لئیے ایک خوشحال ماحول بنایا جا سکے گا اور وہ زیادہ خوش رہے گی۔

اس کے علاوہ آج سے کچھ سالوں پہلے ایک اور تحقیق کی گئی جس میں بنیادی موضوع وٹے سٹے کا تھا۔ وٹا سٹا ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں آپ جس گھر میں اپنی بیٹی بیاہتے ہیں تو پھر اسی گھر کی بیٹی یعانی کے اپنے داماد کی بہن کو اپنے گھر کی بہو بنا لیتے ہیں۔ اس تحقیق کے بہت حیران کن نتائج سامنے آئے کہ دیہی علاقوں میں وٹے سٹے سے کی گئی شادیاں کافی کامیاب دیکھی گئی ہیں۔

کافی لوگ کزن میرج کے خلاف بھی دیکھے جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کزن میرج کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں طلاق میں کمی ہوتی ہے اور رشتوں میں پیار بڑھتا ہے اور رشتے آپس میں مضبوط ہوتے ہیں۔

کزن میرج کے نقصانات

 لیکن جہاں کسی چیز کے فوائد سامنے آتے ہیں تو اس کے کچھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ اپنے کزن کے ساتھ شادی کرنے کے نتیجے میں ہر سال بچوں میں بہت ساری پیدائشی اموات دیکھی جاتی ہیں اور یہ بڑی عمر میں جا کر بہت سی بیماریوں کے ہونے کے خطرے سے بھی منسلک ہوتی ہے جیسے کہ بلڈ پریشر، دل کا دورا یا پھر کینسر وغیرہ۔

جب بھی کزن میرج کا ذکر سامنے آتا ہے تو بہت سے ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں تو اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ کزن میرج نہیں کرنی چاہئییے کیوں کے یہ اگلی نصل میں بہت سارے پیدائشی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس بات کا اصل جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی کزن کی آپس میں شادی کرنے سے نصل میں پیدائشی مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟

شائد آپ نے بھی یہ بات سنی ہو گی اور آپ کے دماغ میں بھی یہ سوال مسلسل گردش کرتا ہوگا۔ اس کے جواب میں ہم جینیاتی نقطہ نطر سے اس معاملے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں ڈی این اے کی ایک خاص مقدار ہوتی ہیں جو کہ ایک جیسی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے والدین کا ڈی این اے بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو اگر ایک جوڑا یعنی کہ وہ مرد اور عورت جو آپس میں شادی شدہ ہیں، خاندانی طور پر جتنا قریب ہوں گے ، انکا ڈی این اے بھی اتنی ہی مقدار میں ایک جیسا ہوتا جائے گا۔

اگر آپ آپس میں تھرڈ یا پھر دور کے کزن ہیں تو آپ کا ڈی این اے تقریبا 0۔78 فیصد ایک جیسا ہو گا۔ اور اگر آپ آپس میں سیکنڈ کزن ہیں تو آپ کا ڈی این اے 3۔12 فیصد ایک جیسا ہوگا جبکہ اگر آپ فرسٹ کزن ہیں تو آپ کے ڈی این اے کا شئیرنگ ریٹ 12۔5 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ڈی این اے آپس میں جتنا ملتا جلتا ہوگا آپ کو اگلی نصل میں پیدائشی مسائل اتنے ہی زیادہ پائے جانے کا خطرہ ہوگا۔

ایسی شادیوں کے نتیجے میں دیکھنے والی بہت سی بیماریوں میں سے ایک بہت عام بیماری تھیلیسیمیا کی ہے جس میں آپ کا خون بہت پتلا ہو جاتا ہے اور یہ بیماری زیادہ تر  انہی بچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے جن کے ماں باپ یا تو آپس میں کزن ہوتے ہیں یا پھر جن میں ماں باپ کے ذریعے سے خراب جین ان کے بچوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

  اگر دیکھا جائے تو آنے والے وقتوں میں کزن میرج کے اوپر ہونے والی یہ بحث بے معنی ہو جائے گی کیوں اب بہت سے پڑھے لکھے لوگ اب اپنی شادیاں کرنے سے پہلے اس سب کی جانچ پڑتال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تا کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی پریشانی سے خود کو اور اپنی اولاد، دونوں کو بچایا جا سکے۔

ایک مطالعے کے مطابق اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب مستقبل میں کزن میرج کا رجحان کم ہو جائے گا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ آج کل کے میاں بیوی فیملی پلیننگ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ اس کی بدولت سے بچوں کی پیدائش اور ان میں ہونے والے پیدائشی مسائل میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

خیر، عمومی طور پر شادی کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہوتا ہے جو زیادہ تر سائنسی حقائق کی بجائے جزبات پر منحسر کرتا ہے۔ آج کل دولہا اور دلہن کے خاندان والے شادی کرنے سے پہلے بہت سی چیزوں اور باتوں کو مدے نظر رکھتے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ، جینیاتی مسائل ان باتوں میں سے نہیں ہے۔

شادی سے پہلے کی جانے والی جینیاتی ٹیسٹنگ کا خیال بہت کم ہی کسی کو آتا ہے اور بعد میں اس کی وجہ سے سامنے آنے والی کسی بھی قسم کی پریشانی یا مسئلے کو قسمت کا نام دے دیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جا سکے کہ صرف کچھ اہم باتوں کا خیال رکھ کر ہم ان مسائل سے خود کو اور ہماری آنے والی نصل کو بچا سکتے ہیں۔   

Disclaimer: The contents of this article are intended to raise awareness about common health issues and should not be viewed as sound medical advice for your specific condition. You should always consult with a licensed medical practitioner prior to following any suggestions outlined in this article or adopting any treatment protocol based on the contents of this article.

Dr. Hira Tanveer
Dr. Hira Tanveer - Author Dr. Hira Tanveer is an MBBS doctor and currently serving at CMH Lahore. Writing is her favorite hobby as she loves to share professional advice on trendy healthcare issues, general well-being, healthy diet, and lifestyle.

Book Appointment with the best "General Physicians"